Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

پیارے بچو! علی سے رہنمائی حاصل کریں

ماہنامہ عبقری - اگست 2012

علی ایک بہت ہی اچھا لڑکا تھا‘ سب گھر والے اس سے بہت محبت کرتے تھے۔ علی بھی اپنے بھائی بہنوں اور امی ابو سے بہت محبت کرتا تھا وہ امی ابو کی خدمت کرتا تھا کام کاج میں ان کا ہاتھ بٹاتا اور چھوٹے بھائی بہنوں کی پڑھائی میں مدد کرتا تھا۔ علی پانچ وقت کی نماز پابندی سے مسجد میں جاکر جماعت کے ساتھ پڑھتا تھا۔ ایک دن علی فجر کی نماز پڑھ کر گھر آیا اور کسی سے بات چیت کیے بغیر اپنے بستر پر لیٹ گیا‘ علی کی امی نے اس سے پوچھا: ’’کیا بات ہے علی بیٹے تم بستر پر لیٹ گئے‘ سکول نہیں جانا؟‘‘ علی نے کہا: نہیں امی! آج میں سکول نہیں جاؤں گا میرے سب دوست میرے پھٹے ہوئے جوتے دیکھ کر میرا مذاق اڑاتے ہیں آپ ابو سے کہیں وہ میرے لیے نئے جوتے بازار سے لے آئیں۔ علی کے ابو غریب تھے وہ ایک جگہ نوکری کرتے تھے اور وہاں سے ملنے والی تنخواہ سے گزر بسر مشکل تھی‘ علی کی زبان سے اس قسم کی بات سن کر وہ پریشان ہوگئے۔ انہوں نے اپنی اہلیہ (علی کی امی) سے کہاکہ دو رکعت نفل صلوٰۃ الحاجت پڑھ کر اللہ سے مانگو کہ یا تو اللہ اس کے جوتوں کا انتظام کردے یا علی کو صحیح سمجھ دے کہ وہ اپنا گزارا انہی پرانے جوتوں پر کرے۔
علی کی امی اور ابو نے صلوٰۃ الحاجت پڑھی اور اللہ سے دعا کی۔ علی ظہر کی نماز کے وقت نیند سے اٹھا اور کسی سے بات کیے بغیر وضو کرکے مسجد کی طرف چلا گیا۔ راستہ میں اس کی نظر اپنے دوستوں پر پڑی جو نئے جوتے پہنے سکول سے واپس آرہے تھے۔ علی ان سے منہ چھپا کر آگے بڑھ گیا کہ کہیں وہ اس کا مذاق نہ اڑائیں۔
اچانک علی کی نظر ایک لڑکے پر پڑی جو بے ساکھیوں کے سہارے مسجد کی طرف جارہا تھا اس کے دونوں پاؤں نہیں تھے۔
اسے دیکھ کر علی کو بے حد افسوس ہوا اور بے اختیار آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ مجھ سے کتنی بڑی غلطی ہوگئی اللہ نے مجھ پر اتنے احسانات انعامات کیے کہ مجھے تندرست بنایا دونوں پاؤں عطا فرمائے بغیر بے ساکھیوں کے میں چل سکتا ہوں۔ لیکن پھر بھی میں اللہ کی ناشکری کرتا ہوں۔ علی اپنی حرکت پر بہت نادم ہوا اس نے نماز پڑھ کر اللہ سے توبہ کی اور گھر آکر امی ابو  سے بھی معافی مانگی اور انہیں سارا واقعہ سنایا کہ کس طرح اللہ نے اس کو صحیح راستہ دکھایا۔
کھانا کھا کر علی گھر سے باہر جانے لگا علی کی امی نے پوچھا بیٹا کہاں جارہے ہو‘ علی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اپنے پرانے جوتوں کو نیا کرنے۔ علی کی امی یہ دیکھ کر خوش ہوگئیں کہ علی اپنے پرانے جوتوں کو پالش کرکے چمکا رہا تھا اور اللہ تعالیٰ نے جس حال میں رکھا حال میں خوش تھا اور پرانے جوتوں میں پر اللہ کا شکر ادا کررہا تھا اور کہہ رہا تھا الحمدللہ علی کل حال ہرحال میں اللہ کا شکر ہے۔
لالچی بیکری والا
حامد شہر سے تھوڑی دور ایک گاؤں میں رہتا تھا گاؤں کے بازار میں اس کی ایک بیکری تھی۔ گاؤں کے اکثر لوگ اسی کی بیکری سے سامان خریدتے تھے کیونکہ اس کی بیکری کی چیزیں تازہ ہوتی تھیں۔ حامد ایک لالچی اور کنجوس شخص تھا اللہ تعالیٰ نے اس کو بہت دولت سے نوازا تھا لیکن وہ اس دولت میں سے غریبوں پر کچھ بھی خرچ نہیں کرتا تھا بلکہ ہر وقت اسی فکر میں رہتا تھا کہ کس طرح اس کی دولت میں اضافہ ہوجائے۔
اسی گاؤں میں ایک آدمی ہارون رہتا تھا وہ بہت غریب تھا۔ ایک دن ہارون حامد کی بیکری کے باہر سے گزر رہا تھا اسے بے حد بھوک لگی ہوئی تھی اور جیب میں ایک پیسہ بھی نہ تھا۔ حامد کی بیکری سے تازہ ڈبل روٹیوں کی خوشبو آرہی تھی۔ ہارون بیکری کے باہر کھڑا ہوکر ڈبل روٹیوں کی خوشبو سونگھنے لگا۔
حامد بیکری میں بیٹھا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور بیکری سے باہر آکر ہارون کو پکڑلیا اور کہا کہ تم نے میری بیکری سے آنے والی خوشبو کو سونگھا ہے اس لیے تم اس کے پیسے دو۔ ہارون بہت پریشان ہوا کیونکہ اس کے پاس تو پیسے ہی نہ تھے۔ اس نے حامد سے کہا بھائی حامد میں نے تم سے کوئی چیز تو نہیں خریدی کہ میں تم کو پیسے دوں میں نے تو صرف خوشبو سونگھی ہے اور خوشبو سونگھنے کے پیسے نہیں ہوتے۔ اب تو حامد غصے سے چلانے لگا۔
لوگ جمع ہوگئے لوگوں نے بھی سمجھایا کہ ظلم مت کرو‘ ظلم کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ ظالم کو ذلیل کردیتے ہیں۔ لیکن حامد نہ مانا اور اس نے کہا کہ ہمارا فیصلہ قاضی صاحب (جج صاحب) کریں گے اور یہ کہہ کر دوبارہ ہارون کو لے کر عدالت کی طرف روانہ ہوا۔ ہارون نے راستہ میں اپنے بھائی زاہد کو بھی بلالیا کہ وہ بھی اس کے ساتھ چلے اور اس کی مدد کرے۔ زاہد ایک سمجھدار اور عقلمند آدمی تھا وہ جانتا تھا کہ حامد بہت ہی لالچی آدمی ہے۔ یہ تینوں قاضی کے پاس عدالت پہنچے۔
حامد نے قاضی سے کہا جناب والا! اس شخص (ہارون) میری بیکری کی چیزوں کی خوشبو کو سونگھا اور اب یہ اس کے پیسے نہیں دےرہا آپ انصاف کریں اور مجھے میرا حق اس سے دلوائیے۔
زاہد حامد کی بات سن رہا تھا وہ آگے بڑھا اور قاضی صاحب سے کہا کہ اگر اجازت ہو تو اس کی اجرت ادا کردوں۔ قاضی صاحب نے اجازت دے دی زاہد نے جیب سے سکوں سے بھری ہوئی تھیلی نکالی اور حامد کے کان کے قریب تھیلی کو ہلایا جس سے سکوں کی چھن چھن پیدا ہوئی۔ زاہد نے حامد سے کہا کیا تجھے سکوں کی آواز سنائی دی۔ حامد نے کہا ہاں! زاہد نے کہا یہی آواز کا سننا اجرت ہے اس سونگھنے کی جو ہارون نے سونگھا۔ قاضی صاحب زاہد کی عقلمندی سے بہت خوش ہوئے اور ہارون کو آزاد کردیا اور پورے شہر میں اعلان کروادیا کہ حامد ایک لالچی آدمی ہے۔ اب جو لوگ پہلے حامد سے محبت کرتے تھے اس کی لالچ اور غریبوں پر ظلم کرنے کی وجہ سے اس سے نفرت کرنے لگے۔

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 070 reviews.